بروز بدھ ٢١مئ کو پاک فضائہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئ۔ جس کے نتیجے میں ٨٠ کے قریب مقامی اور غیرملکی شدت پسند ہلاک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ان حملوں میں ازبک کمانڈر ابو احمد، کمانڈر قانونی، کمانڈر گلمند، کمانڈر جہاد یار، موسٰی خان محسود، صابر محسود اور دختر محمد سمیت کئ اہم کمانڈر جاں بحق ھوئے۔
صابر محسود جو ان دنوں خودکش بمباروں کے عمل و حرکت اور تربیت کا ذمہ دارتھا، اس سے پہلے آئ ایس آئ کے سابق ایجنٹ خالد خواجہ، کرنل امام اور برطانوی صحافی اسد قریشی کے اغواء میں بھی ملوث رہا۔
ان تین اشخاص کے اغواء کی ذمہ داری ایشین ٹائگر نامی تنظیم نے قبول کی۔ اس تنظیم کی داغ بیل صابر محسود نے اپمے دوست عثمان پنجابی عرف عمر کے ساتھ ملکر رکھی۔ ایشین ٹائگر میں زیادہ تر افرادی قوت لشکرجھنگوی کے کارکنوں کی تھی۔
اس اغواء کے دوران عثمان پنجابی ایشین تائگر کے ترجمان کے طور پر منظرعام پر آیا۔ عثمان نے عبداللہ منصور، جو کے لشکرجھنگوی العالمی کا سربراہ تھا، کے ساتھ ملکران تین اشخاص کو ڈاکیومنٹری کی عکسبندی کے دھوکے سے بلا کر اغواء کیا۔ اس اغواء کے تقریباً ایک مہینہ بعد خالد خواجہ کو قتل کردیا گیا۔ خالد خواجہ کے بیٹے نے اپنے والد کی موت کا ذمہ دار حامد میر کو ٹہرایا۔ ان کے مطابق حامد میر کی ایک فون کال خالد خواجہ کے قتل کا باعث بنی۔ جس میں حامد میر نے عثمان پنجابی کو وزیرستان میں فوج کی متوقع نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اور بتایا تھا کے خالد خواجہ کا تعلق سی آئ اے سے ہے۔ اس بات چیت کے فوراً بعد ہی اغواءکاروں کی جانب سے خالد خواجہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
کچھ عرصے بعد ڈانڈے درپہ خیل، شمالی وزیرستان کے علاقے میں محسود قبیلے اور عثمان پنجابی کے درمیان ایک عرب جنگجو کی بیوہ پر تنازع کھڑا ہوا۔ اور نتیجتاً عثمان پنجابی اپنے پانچ ساتھیوں سمیت صابر محسود کے ہاتھوں مارا گیا۔ صابر محسود اور حکیم اللہ کے تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ تھے اس واقعے کے بعد مزید تناؤ کا شکار ہو گئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق حکیم اللہ محسود کی جانب سے صابر محسود کو مارنے کی ناکام کوشش بھی کی گئ۔ Read the rest of this entry »